اطمنان قلب کے لیے شکر گزار دل ہونا ضروری ہے

محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ

انسان کا مزاج کچھ ایسا ہے کہ جو کچھ اس کو ملا ہے، اس پر وہ آسودہ اور مطمئن نہیں ہوتا اور جو کچھ نہیں ملا ہے، اس کے پیچھے بھاگتا اور ڈوڑتا ہے، حیران اور پریشان رہتا ہے۔اسی مزاج کا یہ نتیجہ ہے کہ اکثر آدمی اس دنیا میں بے کیف بے لطف اور غیر مطمئن زندگی گزارتا ہے۔کوئی بظاہر خوش نصیب آدمی، جس کو لوگ قابل رشک سمجھتے ہیں وہ بھی اندر سے اتنا ہی بے چین، بے سکون،پریشان حال اور غیر مطمئن ہوتا ہے، جتنا لوگ اس کو رشک کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں ۔دنیا میں ہر شخص اور ہر انسان کو کوئی نہ کوئی صلاحیت اور نعمت (اور مخصوص صلاحیت و انعام و خوبی) ملی ہوئی ہے، کسی کو کم کسی کو زیادہ ،مگر جس شخص کے اندر شکر گزاری اور احسان شناسی کا جذبہ اور کیفیت نہیں ہوتی وہ ہمیشہ غیر حاصل شدہ نعمت کی طرف متوجہ رہتا ہے اور اس نعمت کے نہ حاصل ہونے کی وجہ سے اندر اندر بے چین و بے قل ہوتا ہے اور کڑھتا رہتا ہے اور اپنی زندگی بے کیف بنا لیتا ہے، جو نعمت ہر وقت اسے حاصل ہے اور جس سے وہ برابر لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے، اسے حقیر، بے وقعت اور معمولی سمجھتا ہے ۔جو شخص اپنی زندگی کی روش، ڈگر اور راستہ و طریقہ ایسا بنا لیتا ہے، اور اپنی حاصل شدہ نعمتوں کی قدر نہیں کرتا اسے معمولی اور بے حیثیت خیال کرتا ہے، ایسے آدمی کے اندر اپنے خدا کے لئے شکر کا جذبہ نہیں ابھرتا، وہ ہمیشہ پریشان، غیر مطمئن اور بے چین و مضطرب نظر آتا ہے، بلکہ بسا اوقات ذھنی و دماغی ڈپریشن کا شکار بھی ہوجاتا ہے ۔
ہمارے ایک تعلق والے ہیں، جو ڈاکٹر ہیں ، جو میری تحریروں کے بہت قدرداں ہیں اور ہمیں مہمیز بھی لگاتے رہتے ہیں، اور خود علم و عمل کے جامع ہیں، ان کا مطالعہ بھی بہت وسیع ہے ۔حضرت مولانا علی میاں ندوی رح کے تریبت یافتہ ہیں ۔انہوں نے مجھ کو بتایا کہ ایک بار وہ ایک مرکزی ادارے یعنی ایک بڑے دار العلوم گئے (جہاں ان کا آنا جانا لگا رہتا تھا ) وہاں وہ ایک بہت بڑے استاد سے ملنے گئے، جن کو علمی حلقوں میں بہت مقبولیت حاصل تھی اور وہ کسی شعبہ کے صدر بھی تھے ۔ علیک سلیک کے بعد چائے ناشتہ کا دور چلا اس درمیان انہوں نے ، (ڈاکٹر صاحب نے) حال و احوال اور خیریت معلوم کی، تو مولانا صاحب کہنے لگے کہ اس دار العلوم میں علیا کے قدیم استاد ہوتے ہوئے مالی اعتبار سے ہم کمزور ہیں دقتیں رہتی ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے کہا ارے مولانا صاحب !آپ کے یہاں تو اعلیٰ فرنیچر قالین اور ضروریات زندگی کی ہر چیز اعلی معیار کی موجود ہے، آپ غریب اور مالی اعتبار سے کمزور کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہاں کئی اساتذہ ہیں جن کے پاس اپنی کار اور گاڑی ہے اور شہر میں پلاٹیں ہیں ۔ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ مولانا صاحب!
آپ کے لئے یہ پلاٹ اور کار والے مولانا نمونہ ہیں یا اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمونہ اور اسوہ و آئیڈیل ہیں، جن کے یہاں ہفتوں اور مہینوں چولہا نہیں جلتا تھا اور خشک کھجور پر اکتفا فرمالیتے تھے ۔اس کے بعد تو مولانا صاحب خاموش اور لاجواب سا ہوگئے، اور موضوع کو دوسری جانب محول کردیا ۔ مجھ سے اگر پوچھا جائے کہ زندگی کا کون سا مرحلہ اور لمحہ آپ کے لئے بہت دشوار کٹھن اور بہت سخت ہوتا ہے؟ ۔ تو اس میں سے ایک وہ وقت اور مرحلہ بھی ہے جب کوئی بظاہر دنیا دار اور عصری تعلیم یافتہ کسی مولانا اور مولوی کو صبر اور توکل کی تعلیم دے اور ان کو عزیمت و استقامت اور اخلاص کی راہ دکھائے ۔اس وقت بہت تکلیف ہوتی ہے کہ ہم کیسے وارثین انبیاء اور نائبین رسول ہیں کہ ایک دنیا دار اور عصری تعلیم یافتہ شخص ہمیں راہ دکھا رہا ہے۔ حالانکہ یہ نوبت اور مرحلہ بہت کم آتا ہے۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا کا نظام خدا نے کچھ اس طرح بنایا ہے اور یہاں کا سسٹم کچھ اس طرح برپا کیا ہے، کہ یہاں مکمل آرام و راحت عیش و عشرت اور سکون و اطمینان کسی کو حاصل نہیں ہے ۔ہر ایک کو کچھ ملا ہے اور کچھ نہیں بھی ملا ہے ۔ایک علاقہ اور صوبہ و خطہ کا آدمی وہاں کے مسائل و مشکلات اور پریشانیوں سے گھبرا کر دوسرے علاقہ میں چلا جاتا ہے۔ تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہاں جاکر اسے معلوم ہوتا ہے ، کہ یہاں تو وہاں سے زیادہ مشکل ، پریشانی اور دقتیں ہیں،دنیا میں اولاد والے کے لیے مسائل ہیں، تو بے اولاد کے بھی مسائل ہیں ،ناخواندہ کے لئے مسائل ہیں۔ تو علم والے کے لیے بھی مسائل ہیں ۔کم آمدنی والے کے مسائل ہیں تو زیادہ آمدنی والے کے بھی مسائل ہیں۔ اگر کمزور اور بے زور آدمی کے مسائل ہیں، تو ان کے بھی مسائل ہیں جن کو زور و قوت اور عہدہ و منصب حاصل ہے ۔غرض اس دنیا میں کوئی ایسا نہیں ہے جو مسائل سے گھرا نہ ہو ۔یہ دنیا امتحان اور آزمائش کی دنیا ہے، یہاں کسی کو مسائل اور حالات سے فرصت نہیں اور حدیث نبوی ﷺ ہے کہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے، اس لیے مومن کو تو حالات و مسائل کا سامنا رہتا ہی ہے۔بس انسان کو چاہیے کہ فرمان رسالت کی پیروی کرے کہ دینی معاملات میں اپنے سے اوپر والوں کو دیکھے اور دنیاوی زندگی، عیش و عشرت اور آرام و آسائش کے معاملہ میں اپنے سے نیچے والوں کو دیکھے ۔یہی نسخہ اور تشخیص اس بے سکونی اور بے اطمینانی کی دوا اور زہر کا تریاق ہے ۔
انسان کو چاہیے کہ وہ جن مسائل کے درمیان ہے، اور جن حالات کا اس کو سامنا ہے،اس کو صبر و تحمل، برداشت، شگفتگی اور استقامت و عزیمت کے ساتھ برداشت اور گوارہ کرے اور اس فانی دنیا میں اپنا سفر جاری رکھے ۔اس کی توجہات کا مرکز اور زندگی کا حاصل، مقصد اور خلاصہ خدا کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا ہو نہ کہ مسائل سے پاک زندگی کا مالک بننا ۔کیونکہ وہ تو آخرت سے پہلے ممکن ہی نہیں ہے ۔ مسائل سے پاک زندگی صرف جنت میں ہوگی جو دائمی خواہشوں، آرزوؤں چاہتوں اور تمناؤں کا محل ہے ۔جہاں کے بارے میں خدا تعالٰی کا اعلان ہے ۔ ولکم فیھا ماتشتھی انفسکم و لکم فیھا ما تدعون. ۔۔۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مومن بندہ معاش و اقتصاد سے کٹ جائے اور روزی روٹی کے لیے سعی و کوشش نہ کرے اور دوسروں کے نان شبینہ اور احسانات کا محتاج بن کر رہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ دنیا کو لالچی نظروں سے نہ دیکھے اس سے متاثر ہوکر اور دوسروں کی نعمت سے مرعوب ہوکر اپنے کو معمولی و حقیر نہ خیال کرے اور پریشان ظاہر نہ کرے۔ جائز طریقہ سے دنیا کمانا حکم شریعت ہے اس کے بغیر بہت سے فرائض و واجبات ادا نہیں ہوسکتے اور مالی حقوق ادا نہیں کیے جاسکتے، اس لیے مالیات ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں،صحابہ کرام میں ایک بڑی تعداد ان کی تھی جو مالی اعتبار سے بہت بلند تھے جو اکثر اوقات مدد کے لیے تیار رہتے تھے اور ہر مشکل موقع پر اسلام اور مسلمانوں کے کام آتے تھے ۔

ناشر /مولانا علاؤالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ

Leave a Reply