تاریخ طب اور اسلام
طب کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسان کی تاریخ پرانی ہے ،جب سے انسان اس عالم فانی میں آیا اسی و قت سے بیماری بھی اس کے ساتھ لگی ہوئی ہے ، کہا جاتاہے کہ اس علم کی ابتداء وحی والہام سے ہوئی ،پھر مشاہدات وتجربات سے اس میں تر قی ہوتی رہی ، اوراور آج بھی اس کا سلسلہ جاری ہے ،اس طرح انسان کی جسمانی تکالیف کا ازالہ ہوتا ہوا آرہاہے۔
معلوم تاریخ کی روشنی میں مؤ رخوں نے دعوی کیاہے کہ فن طب میں جسے شہرت ملی وہ حضرت ادریس ؑ کے شا گر د اسقلیبوس ہیں ، اس فن میں ان کی خداقت ومہارت کی وجہ ان کو رب الطب کہا جاتاہے ، پھر دوسرا نامور طبیب بقراط گذرا ہے ، جس نے طب کو باقاعدہ ایک فن کی شکل دی ،اس فن پرکتابیں لکھیں ، بدن پر اخلاط اربعہ کے اثر انداز ہونے کانظریہ پیش کیا، اس نے پہلی بار حفظان صحت ، آب وہوا اورغذا وعلاج کے بارے میں اپنی تحقیقات پیش کیں ، اس کے بعد فیثا غورث، سقراط، ارسطو ، جالینوس قابل ذکر اطباء میں سے گذر ے ہیں۔
چھٹی صدی عیسوی تاریخ کا وہ سنہرا دور ہے ،جس میں اللہ رب العزت نے بنی نوع انسان کے لئے نبی کریم ﷺ کو اپنا پیغمبر اورمعلم کتاب وحکمت کا عظیم منصب عطاکر کے مبعوث فرمایا ، آپ ﷺنے روحانی علاج کے ساتھ جسمانی علاج ومعالجہ کابھی اہتمام فرمایا ، عام معالجین واطباء کے مقابلے میں آپ ﷺ کی طب بدرجہا فائق وبر تر ہے ،جہاں تک رسائی سے عقل انسانی عاجز ہے ، آپ ﷺ نے اپنا اور اپنے اہل وعیال اوردیگر صحابہ کرام کاعلاج عموماً ادویۂ مفردہ سے کرتے ،اوراس میں مریض کی نفسیات اوراس کی روحانی تقویت کا بھی خیال رکھتے ،آپ ﷺ نے معالجہ میں دلی تقویت اور حفظان صحت کے اصول بیان کئے، آپ ﷺ نے مختلف بیماریوں کا علاج تجویز فرمایا ، اشیاء کے خواص بتلا ئے ، اور لوگوں کو علاج کی جانب متوجہ فرمایا، آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جواپنے بھائی کوکسی جہت سے نفع پہونچاسکتا ہوتو اس سے دریغ نہ کرے ۔
اس سے تحریک پاکر مسلمانوں نے اس فن پرخصوصی توجہ دی ، حضرت عائشہؓ کوفن طب سے خصوصی لگائو تھا ، حارث بن کلدہ ثقفی ؓ جو طبیب العرب سے مشہور ہوئے ، اورجنہوں نے ایک لمبی عمر پائی ، حضور ﷺ کے مبارک عہد سے امیر معاویہ ؓ کے زمانہتک زندہ رہے ، فن طب میںآپ کوخصوصی مہارت تھی ، حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ جب مکہ مکرمہ میںبیمارہوئے توآپ ﷺ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے ،آپ ﷺ نے حارث کو بلایا؛تاکہ وہ ان کاعلاج کریں ، حارث نے بتایاکہ حلبہ اور عجوہ کی کھجوروں کا جو شاندہ بناکر ان کو پلایا جائے ، چنانچہ اسی دوا سے ان کوصحت ہوگئی ، اسی طرح حارث کے بیٹے نضر نے بھی بڑ ی محنت سے اس علم کوحاصل کیا ، اوراپنے باپ سے زیا دہ شہر ت حاصل کی ، ابن ابی اتمہ بھی زمانہ جاہلیت کے مشہور طبیب تھے ، حضور ﷺ سے ان کی ملا قات ثابت ہے ، یہ علاج اورجراحی کے نہایت کامیاب طبیب تھے ، حضر ت عمر فاروق ؓ نے جب فارس پر لشکر کشی کی توفوج کے ساتھ بہت سے طبیب وجراح بھی بھیجے تھے ، ولید بن عبد الملک کے زمانے میں جوبنوامیہ کا تیسر ا تاجدار تھا ، شفاخانوں کی بنیا د پڑی اوراس نے سب سے پہلے ۸۸ھ میں ایک شفاخانہ تیارکرایا،جس میں بہت سے طبیب وجراح مقررکئے ،اس کے بعد ملک کے دوسرے حصوں میں رفتہ رفتہ شفاخانے کھلنے لگے ، بعض شفاخانے تو ایسے معیاری تھے کہ ان میں سینکڑوں امراض کے مریض قیام کی ساری سہولتوں کے ساتھ علاج کراتے اورتندرست ہونے کے بعد نہ صرف مقو ی ادویہ بلکہ ضروریات کی تکمیل کے لئے غلہ ،نقد اورکپڑے بھی دیے جاتے تھے کہ ذریعۂ معاش اختیار کرنے تک بے فکر ی کے ساتھ زندگی گذارسکیں ، ان شفاخانوں کے لئے بڑی بڑی جاگیریں وقف تھیں ، جن سے سالانہ لاکھوں آمدنی ہوتی تھی ، اوراسے مریضوں کے علاج معالجہ اور دیگر ضروریات پر خرچ کیا جاتا تھا ، یہ اس وقت کی بات ہے کہ یورپ کسی ہسپتال کے مفہوم سے بھی آشنا نہ تھا ،بلکہ ۱۷۱۰ء تک ان کی یہی حالت تھی ۔
۱۰۸ھ میں مسلمانوں نے بقراط اورجالینوس کی کتابوں کا تر جمہ عربی زبان میں کرکے اس علم کو عام کردیا ، عرب کے ایک طبیب ہارون گذرے ہیں ، جو اسکندریہ کے رہنے والے تھے ،انہوں نے سے سب سے پہلے چیچک کا پتہ لگایا،اس کے بعد ابن زکریا رازی نے اس پر مزید تحقیق کی اور چیچک اور خسر ہ کے درمیان پائے جانے و الے فرق کو واضح کیا ، ۳۱۹ھمیں اطباء کے امتحان کا طریقہ رائج ہوا کہ جب تک کوئی باقاعدہ امتحان نہ دے اس وقت تک وہ علاج نہیں کرسکتا ، ممتحن سنان بن ثابت مقرر ہوئے ، اس امتحان میں ۸۶۰ افراد کامیاب ہوئے ، مسلم مشہور اطباء کی خدمات اوران کی ایجادات ایک مستقل موضوع ہے ، ان کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ ایک سے ایک مسلمان ماہر و حاذق طبیب گذرے ہیں ، جن میں حارث بن کلدہ ، نضر بن حارث ، ابو نصر فارابی ، بوعلی سینا ، ابن زکریا ، ابن ابی صادق ، ابن بیطار ، ربن طبری ، جابر بن حیان ، ابن الہیثم ، حربی الحمیری ، خالدبن یزید ، ابن الفزاری ، یعقوب بن طارق ،کندی ، ابو الوفاء بو زجانی ، ابوالقاسم زہراوی ،ابن النفیس جیسے نامور اور صاحب ذوق طبیب شامل ہیں ۔
اس سے اندازہ ہوتاہے کہ مسلمانوں کافن طب میں نمایا ں حصہ رہاہے ، اورآج کل جوطب میں ترقی نظرآرہی ہے ، اس کی بنیا د درحقیقت مسلمانو ں نے فراہم کی ہے ، لیکن یہ واقعہ ہے کہ جب تک اس فن میں مسلمانوں کو بالاد ستی حاصل رہی وہ اس فن سے خدمت خلق کا کام لیتے رہے ،اور مریضوں کی مجبوی سے فائدہ اٹھا کر اپنی دنیا بنانے کا جذبہ ان میں کبھی کار فرمانہیں رہا ، وہ اسے عبادت سمجھ کر اور رضائے الہی کے حاصل کرنے کا ذ ریعہ ہونے کا یقین کر کے علاج کیا کرتے تھے ، اوراپنے پیشہ میں مہارت وحذاقت کوتر جیح دیتے تھے ، لیکن آج کے اس ما دی دور میں جب کہ یہ پیشہ ایک تجارت بن گیا ہے ،مریض کا استحصال ایک عام سی بات ہوگئی ہے ،ٹسٹ کرانے کامعاملہ ہویا دواکی خریداری کی بات ہو یاکسی ڈ اکٹر کی طر ف رہنمائی ہو، ہر جگہ ڈاکٹروں کا کمیشن متعین ہوتاہے ، اپنے فن کے لحاظ سے ڈاکٹر حضرات اگرچہ محسوس کرتے ہیں کہ کہ مریض دوا سے شفاپا جا ئے گا ، لیکن اس کے لئے جان بوجھ کر آپریشن تجویز کرتے ہیں ، تاکہ زیا دہ سے زیا دہ رقم وصول کی جاسکے ،دوائوں کی تیاری میں بھی حلال وحرام کی تمیز اٹھ چکی ہے ، اس طرح کے ایک دو نہیں ؛بلکہ سینکڑوں مسائل طب جدید نے پیدا کر دیے ہیں ، جن کا شر عی حکم واضح کر نے کی ضرورت ہے ،اورایک مفتی کوان مسائل سے گہری واقفیت وقت کاتقاضاہے ۔
اسی پس منظر میں امسال ایک مر کزی عنوان ’’اسلام اور میڈیکل مسائل‘‘ طلبۂ تخصص فی الفقہ والافتاء کے لئے متعین کیاگیا ، پھر اس کے ذیلی عناوین قائم کر کے ان سے مقالے لکھو ائے گئے ، ماشاء اللہ ان فضلاء نے اپنے اپنے موضوع سے متعلق مواد فراہم کر نے میں اچھی محنت کی ہے ، اصل مراجع تک پہونچنے کی جد وجہد کی او رتحقیقی معیار کو باقی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے ،دیکھنے میں اگر چہ یہ مقالہ جات طلبہ کے ہیں ؛لیکن اعتبار و استنا د کے لحاظ سے بہر حال کمتر نہیں ہیں،اللھمزد فزد
میں اس موقع سے شکر گذار ہوں ناظم جامعہ مفتاح العلماء مولا نا محمد رحیم الدین انصاری صاحب دامت برکاتہم کا کہ انہوں نے اس علمی اورتحقیقی مقالہ جات کو شائع کر نے کی منظوری دے کر طلبہ کی حوصلہ افزائی فرمائی ، اسی کے ساتھ حضرت مولانا حسیب الرحمن صاحب ( شیخ الحدیث وصدر مدرس جامعہ) حضرت مولانا تراب الحق صاحب مظاہری (نائب صدر مدرس جامعہ) اورمولا نا علائو الدین صاحب انصاری قاسمی( انچارج جامعہ )نے اس کی تیاری میں بہت حوصلہ دیا اور ہر طرح کاتعان پیش کیا ،اسی طرح تخصص فی الفقہ و الا فتاء کے اساتذہ حضرت مو لانا مفتی تجمل حسین صاحب قاسمی ، حضرت مولانا مفتی امانت علی صاحب قاسمی ، حضرت مولانا مفتی مکرم محی الدین صاحب قاسمی او رحضرت مولانا مفتی تبریز عالم صاحب قاسمی کابھی شکرگذار ہوں کہ ان حضرات نے مقالہ جات پرنظر ثانی فرمائی اور پروف ریڈنگ وغیرہ کے مر احل کوبحسن وخوبی انجام دیا ،اللہ تعالی ان تما م حضرات کواپنے شایان شان اجرجزیل عطا فر مائے آمین ۔
محمد جمال الدین قاسمی
۲۵ /رجب المرجب ۱۴۳۵ھصدر مفتی جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حید رآباد